News Guides Comparisons Specs & Price

Peshawar’s Bus Rapid Transit Will Have No Govt Subsidy

Due to start within the next few weeks, Bus Rapid Transit (BRT) project by the KP government has been appreciated by the members of Peshawar’s District Assembly. The project will cost around Rs. 52 billion and will help reduce Peshawar’s air pollution.

In a district council meeting headed by Qasim Ali Shah, Peshawar’s Deputy Mayor, the members were taken into confidence and were briefed on the multi-billion rupee project. A team actively working on the project briefed the house on the mass transit service and informed the councilors on the different routes of the project. The cost of the project was also discussed.

The briefing also detailed the project’s importance in resolving the transport issues in the provincial capital.

About the BRT

Shahid Alvi, a BRT team member, said that the BRT will be a self-sustaining urban transport system. He added that the project is based on a 3rd generation transport model, which is currently being used in China only.

The total cost of the project has been stated as Rs 52.36 billion. Alvi added, “The cost of infrastructure and establishment of depots is Rs39.27 billion, the estimated cost of utilities in the project is Rs4.2 billion.”

The house was told that every passenger would have to pay Rs. 25 to Rs. 50 as fare, depending on the route. The KPK government will not be providing any subsidy on the service in order to make it self-sufficient, so that all expenses are covered by the project itself.

In comparison, previous generation metro bus projects received billions of rupees as subsidies to keep the projects going.

Nazim Peshawar, Arbab Asim, who is also the CEO of the BRT project, said “The service will also be very helpful in reducing the traffic problems as citizens will prefer to use the BRT for transportation instead of personal cars,” and that nearly half a million people will use the service on daily basis.

The district councilors commended the attempt to establish such a transport system in Peshawar which is also encouraging economic activities and improving the environment in the city.

Reduction in Air Pollution

According to the World Health Organisation (WHO), BRT will help cut carbon dioxide emissions in Peshawar by nearly 31,000 tonnes within its first year of operations. The reductions are said to rise to 62,000 tonnes by 2026 and 77,000 tonnes by 2036.

This is possible thanks to the use of 400 fuel efficient buses and reduction in diesel powered vehicles in the city. Prior to this, Peshawar was categorized as one of the worst cities in terms of air pollution.

The green nature of the project is one of the major reasons behind Asian Development Bank’s investment in the BRT Peshawar project. It is hoped that reduction in carbon emissions and the tree plantation campaign will improve the environment of the city.


    • Yes thanks to pml Q for building such cardiology hospitals in punjab…. People may be forgetting that major welfare projects including hospitals, rescue 1122, free mandatory primary education were made possible in musharraf plus pml Q era. Pml N has nothing to do with them

      • The newest of them is built by SS in Rawalpindi and majority of its patients come from KPK. Dont poke your nose in things you know nothing about

        • Haha….. Heated…. Uff… One hospital and metro in a couple of cities that too running on subsidy…. But no problem slavery can’t be undone here… What about PIA, steel mills.. Hope they are gathering huge profits.. And please don’t talk about provincialism, it spreads hatred… Criticize what needs it… I am a Punjabi and we get major chunk of electricity from mega tarbela dam in kpk

        • Have you even had a chance to visit any of the public hospital? Grow up you bel***d.

      • These knuckleheads can’t even run those hospitals built by PMLQ, i have had a chance to visit one and the situation was outrageous and ridiculous. These people in current Government are good for nothing. I wish if God would have allowed us to kill one person in life then i would have had urge everyone to kill one parasite (PPP, PMLN, JUIF supporters ) for the sake of helping this poor nation.

  • Now this is really good… Yesterday i watched a video on this project… It would be somehow different and more productive from metro in punjab…. What i liked the most were allied sub routes apart from main routes and secondly no subsidy…. Let the systems run by themselves.. This is how things will run smoothly… I am not against metro in punjab yes many people are being benefited daily though many don’t get seats to sit in. But what if the next government would stop providing subsidy to run… Billions will go in waste… Same what happened to previous projects in nawaz govt e.g varaan buses… Hope many people around know their fate

  • Hilal Metro. Bus ko hath lagao gey tu shifa miley gi. Safer karo gey tu BA ki degree free miley gi.. Keep it up…

      • فضائلِ حلال میٹرو
        جب سے مہاتما بنی گالوی صاحب نے پشاور میں حلال میٹرو کے قیام کا اعلان فرمایا ہے، انصافیوں کی جانب سے شوشل میڈیا پر اس کے فضائل پر مبنی پوسٹس کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کبھی کبھار تو دل کرتا ہے ایسی بچکانہ اور احمقانہ پوسٹس کرنے والوں کو بلاک کردیا جائے، مگر پھر سوچتا ہوں رہنے دو، ایک سستی تفریح ختم ہو جائے گی۔ انصافیوں کی ذہنی غلامی کا عالم یہ ہے کہ بنی گالہ سے دیہاڑی کی بنیاد پر چلنے والے سوشل میڈیا پیجز پر اگر یہ دعویٰ بھی کر دیا جائے کہ پشاور میٹرو کے اسٹیشن کے دروازے کو ہاتھ لگانے سے اولاد نرینہ حاصل ہوتی ہے تو یہ بلاتوقف اس کو نہ صرف شیئر کر رہے ہوں گے، بلکہ اس کے دفاع میں ’’تاریخی‘‘ حوالے بھی ڈھونڈ لائیں گے! سو پشاور میٹرو بس کی لاگت اور افادیت کا اندازہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پیجز سے لگانا ایسا ہی ہے جیسے نائی کی دکان پر بیٹھے ’’تبصرہ نگاروں‘‘ سے امریکی خارجہ پالیسی سمجھنا! مثلاًً ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پشاور میٹرو سے روزانہ تقریباً 480،000 لوگ سفر کریں گے جبکہ اسی پوسٹ میں لاہور میٹرو کے مسافروں کی تعداد 80،000 یومیہ بیان کی گئی ہے اور پھر اسی بنیاد پر بنی گالہ کے دیہاڑی دار مالیاتی ماہرین فی مسافر لاگت نکال کر بتارہے ہیں۔ واضح رہے کہ پشاور شہر کی کل آبادی 18 لاکھ کے قریب ہے (ایشیائی ترقیاتی بینک کی پشاور میٹرو کے حوالے سے پراجیکٹ رپورٹ کے مطابق۔ آگے چل کر ہم اس رپورٹ کے مزید حوالے دیں گے)۔ جبکہ لاہور شہر کی آبادی حالیہ تخمینے کے مطابق ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے! لاہور میٹرو شہر کے گنجان ترین علاقوں سے گزرتی ہے۔ اب آپ آبادی کے اس تقابل سے اندازہ لگا لیں کہ اگر پشاور میٹرو 18 لاکھ آبادی والے شہر میں روزانہ 480،000 ہزار مسافروں کا بار اٹھا سکتی ہےتو لاہور میٹرو، جس کے روٹ پر غالباً پشاور شہر کی مکمل آبادی سے زیادہ انسان بستے ہیں (جبکہ کراچی میں صرف گلشن اقبال ٹاؤن کی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ ہے)، کتنے مسافر روزانہ کی بنیاد پر ڈھو رہی ہوگی۔یقیناً یہ تعداد 80 ہزار سے کہیں زیادہ ہوگی۔ کیونکہ فقہ بنی گالویہ میں سیاسی مقاصد کے لئے بے دھڑک جھوٹ بولنا ایک مستحسن امر ہے ، اس لئے اسی قسم کے شگوفوں کی آج کل سوشل میڈیا پر بھر مار ہے، اور انہیں لطیفوں کی کثرت سے تنگ آکر میں نے سوچا کہ اس منصوبے کا تجزیہ تحریک انصاف کے شوشل میڈیا پیجز کے بجائے اصل حقائق کی روشنی میں کیا جانا اشد ضروری ہے۔
        سب سے پہلی بات تو یہ کہ فی الوقت مسئلہ کسی کو بھی پشاور میٹرو کے قیام سے نہیں۔ جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ معیاری ٹرانسپورٹ تک رسائی ، صحت اور تعلیم کی طرح عوام کا بنیادی حق ہے اور اگر اس مد میں عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ سرکاری خزانے سے سبسڈی دینی بھی پڑے تو اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ چلانا ایک مہنگا مگر لازمی سودا ہے۔ اسی لیئے دنیا بھر میں تقریباً ہر بڑا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم حکومتی سبسڈی پر کافی حد تک انحصار کرتا ہے۔ مثلاً لندن کا مشہور زمانہ ٹیوب سسٹم ہی دیکھ لیں۔ لندن ٹیوب سسٹم کی مجموعی سالانہ آمدنی کا تقریباً 23 فیصد سبسڈیز کی مد میں حاصل ہوتا ہے جس کی مالیت 2.4 ارب برطانوی پاؤنڈ بنتی ہے ۔ اگر اس کو پاکستانی روپوں میں تبدیل کیا جائے تو اس کی مالیت آج کے ایکسچینج ریٹ کے حساب سے تقریباً 315 ارب روپے بنتی ہے ۔ یہ اس ملک کی روداد ہے جہاں کی اوسط سالانہ فی کس آمدنی 28،000 ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے جبکہ لندن شہر میں یہ 58،000 ہزار ڈالر فی کس بنتی ہے! اسی طرح نیویارک کے سب وے کا جائزہ لیا جائے تو اس کے منتظم ادارے ایم ٹی اے کی ویب سائٹ پر موجود مالیاتی رپورٹس کے مطابق سال 2015 میں ادارے کو تقریباً 4.9 ارب ڈالر سبسڈی کی مد میں حاصل ہوئے جو پاکستانی روپوں میں 513 ارب بنتے ہیں۔ یقیناً امریکہ میں فی کس سالانہ آمدنی بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ جبکہ اگر لاہور میڑو کا جائزہ لیا جائے تو خودتحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق یہ 27 ارب روپے سالانہ سے زیادہ نہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب پبلک ٹرانسپورٹ کو چلانے اور عوام کی پہنچ میں رکھنے کے لیئے برطانیہ جیسے ملک میں، جس کی فی کس سالانہ آمدنی ہماری فی کس سالانہ آمدنی سے 1800 گنا زیادہ ہے ، 300 ارب روپے کی سبسڈی دینی پڑتی ہے تو پاکستان میں بغیر کسی حکومتی امداد کے کس طرح عوام کی اس تک رسائی ممکن بنائی جاسکتی ہے؟ اگلی سطور میں ہم یہ بھی پرکھیں گے پشاور میٹرو پر کسی قسم کی سبسڈی نہ دینا کس قدر ممکن اور قابل عمل ہے۔
        جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا، میں ذاتی طور پر میٹرو جیسے منصوبوں کا حامی ہوں اور پشاور میٹرو میرے لئے کوئی سوتیلی نہیں کہ میں اس کی مخالفت کروں۔ بدقسمتی سے اس قسم کے منصوبوں کے مخالفت خود تحریک انصاف کے چیئرمین کرتے رہے ہیں۔ موصوف نے لاہور میٹرو کو کیا کیا القابات عطا نہیں کئے؟ کون سی پھبتی ایسی ہے جو انہوں نے اس پر نہ کسی ہو۔ چار سال پنجاب حکومت کا میٹرو سسٹم پر مذاق اڑانے کے بعد جب ان کی نظر اپنے صوبے پر پڑی، جہاں سوشل میڈیا اور فوٹوشاپ کے باہر کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام دکھانے کے لیئے نہیں تھا ، تو جناب کو الیکشن سے پہلے حکومت کے آخری سال میں میٹرو بنا نے کی سوجھی۔ جب ان کو ان ہی کے گزشتہ بیانا ت اس حوالےسے یاد دلائے گئے تو حضرت نے فوراً لاگت کا شوشہ چھوڑا کہ پنجاب کے کرپٹ حکمرانوں نے مہنگی میٹرو بنائی، ہم صرف 13ارب روپے میں اس سے اچھی میٹرو بنا کر دکھائیں گے۔ پھر جب کوکین کا نشہ اترا تو ان پر منصوبے کی اصل لاگت منکشف ہوئی جو خیر سے منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی 57 ارب روپے تک جاپہنچی ہے! اب کیا کریں؟ تو کپتان نے رہی سہی عزت بچانے کے لیے حسب سابق خود سامنے آنے کے بجائے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو اس منصوبے کے فضائل بیان کرنے پر لگا دیا ۔ اب ان کی سوشل میڈیا ٹیم جھوٹ بولنے میں روز افزوں ترقی کر رہی ہے۔ ذیل میں ہم تحریک انصاف کی جانب سے کیے جارہے چیدہ چیدہ دعووں کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں اور سچائی کو افسانے سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
        1) شوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ منصوبے کی لاگت 33 ارب روپے ہے۔ یہ ایک ایسا سفید جھوٹ ہے کہ یقین نہیں ہوتا کوئی دن دہاڑے اس قدر ڈھٹائی سے دروغ گوئی سے کام لے سکتا ہے! منصوبے کی کل لاگت تقریباً 57 ارب روپے ہے جس میں سے ایشائی ترقیاتی بینک تقریباً 486.5 ملین ڈالر یعنی 50 ارب روپے بطور قرضہ فراہم کرے گا، جبکہ 7 ارب خیبر پختونخواہ حکومت فراہم کرنے کی پابند ہے۔ مزید تفصیل ایشائی ترقیاتی بینک کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔ پشاور میڑو کا پراجیکٹ نمبر 002-48289ہے۔ یاد رہے کہ خود تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق لاہور میٹرو 34 ارب کی لاگت سے تعمیر ہوئی تھی۔
        2) دعویٰ کیا جارہا ہے کہ منصوبے پر حکومت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوگا بلکہ ایشائی بینک اسے اپنے خرچ پر تعمیر کرے گا اور دس سال تک منافع 25-75 فیصد کے حساب سے پختونخواہ حکومت سے بانٹے گا اور دس سال بعد مکمل منافع پختونخواہ حکومت کی ملکیت ہوگا! اب آتے ہیں حقیقت کی جانب۔ اول یہ کہ منصوبے کے لئے پختونخواہ حکومت کا ایک پیسہ بھی خرچ نہ ہونے کا دعویٰ سفید جھوٹ ہےجس کی حقیقت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ دوسرے یہ کہ منصوبے کے لئے ایشائی بینک گرانٹ نہیں، قرضہ فراہم کر رہا ہے ، جو کہ پانچ سال میں سود سمیت واپس کیا جانا ہے۔ ایشائی بینک کی اپنی پراجیکٹ دستاویزات کے مطابق ( جو ان کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں) اس قرضہ پر شرح سود لائی بور (لندن انٹر بینک آفر ریٹ) جمع 0.6فیصد سالانہ ہوگی، جبکہ کمٹمنٹ چارجز کی مد میں سالانہ 0.15 فیصد بھی وصول کیے جائیں گے۔ آج کے لائی بور ریٹ کے حساب سے اس قرضہ پر موثر شرح سود 2.51 فیصد بنتی ہے۔ یوں نہ صرف اصل قرضہ کے واجبات کی مد 486.5 ملین ڈالر پختونخواہ حکومت کے ذمے ہیں بلکہ اس قرضے پر 64.5 ملین ڈالر سود کی مد میں بھی حکومت کو ہی ادا کرنے ہوں گے۔ اب یہ کہ اس منصوبے سے منافع کمانا قابل عمل ہے بھی کہ نہیں؟ اس کا جائزہ آگےچل کر لیتے ہیں!
        3) دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حکومت ایک پیسے کی بھی سبسڈی فراہم نہیں کرے گی، جبکہ منصوبہ اس کے باوجود نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ منافع بخش بھی! جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا کہ منصوبے کی کل لاگت تقریباً 57 ارب روپے ہے۔ جس میں اگر قرض پر سود کی ادائیگی کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ 63.76 ارب روپے بنتی ہے ۔ ہم مسافروں کی تعداد تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق ہی تسلیم کرکے حساب لگاتے ہیں، یعنی 480،000 مسافر روزانہ۔ اب منصوبے کی کل لاگت کو فی مسافر 5 سال کے عرصے پر تقسیم کرتے ہیں (5سال اس لئے کیونکہ یہ قرض کی واپسی کی مدت ہے)۔ تحریک انصاف کے اپنے تخمینے کے مطابق 480،000 مسافر روز کے حساب سے 5 سال میں پشاور میٹرو سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد 864 ملین بنتی ہے۔ اس حساب سے اگر 5 سال میں منصوبے کی صرف لاگت وصول کرنی ہو تو فی مسافر روزانہ تقریباً 74 روپیہ کرایہ وصول کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ یہ صرف منصوبے کی لاگت کی وصولی کے لئے ہے۔ منصوبہ چلانے کے لئے جو رواں اخراجات آئیں گے ، مثلاً بسوں کے لئے ایندھن، ملازمین کی تنخواہیں، مرمت ودیکھ بھال وغیرہ، وہ اس کے علاوہ ہیں! انصافی ذرائع کے مطابق منصوبے میں 450بسیں چلیں گی جن کا مجموعی روٹ (آن کاریڈور اور آف کاریڈور ملا کر) 170 کلومیٹر کے قریب ہے ۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک بس ایک کلو سی این جی میں (یہ تفصیل آنا باقی ہے کہ بسیں ڈیزل پر چلیں گی یا سی این جی پر)10 کلومیڑ سفر کرے گی، تو ایک دن کا ایندھن خرچ تقریباً (دوطرفہ چکر ملا کر) 11لاکھ 94ہزار روپے ہوگا، جو تقریباً 2.5 روپے فی مسافر بنتا ہے۔ اگر یہی حساب ڈیزل کے مطابق (6 کلومیٹر فی لیٹر)کیاجائے تو فی مسافر ایندھن کی لاگت 4.60روپے ہوجاتی ہے۔ ہم فی الحال سی این جی کا تخمینہ ہی استعمال کرتے ہیں تو اب فی مسافر کرایہ 76.5 روپے ہوجاتا ہے۔ اب آتے ہیں ملازمین کی تنخواہوں کی جانب۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ منصوبے کو چلانے کے لئے فی 500 مسافر ایک ملازم درکار ہوگا۔ اس طرح ملازمین کی کل تعداد تقریباً 960 بنتی ہے، ہم آسانی کے لئے اسے 1000 کرلیتے ہیں۔ اگر ان ملازمین کو اوسط 30،000 روپے ماہانہ کے حساب سے تنخواہ دی جائے تو فی مسافر لاگت تقریباً 2.08 روپے بنتی ہے۔ مرمت اور دیکھ بھال کے لئے بھی ہم 2 روپے فی مسافر فی دن فرض کر لیتے ہیں۔ سو یہ موٹے موٹے اخراجات ملا کر فی مسافر یومیہ کرایہ کم از کم 80.58 روپے بنتا ہے۔ دیگر اخراجات کا تخمینہ لگانا مشکل ہے مگر ہم یہ تقریباً 3.5 روپے فی مسافر یومیہ فرض کر لیتے ہیں۔ پھر مزید یہ کہ خود تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق ایشائی بینک اس منصوبے پر 10سال تک منافع کمائے گا۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ مجموعی شرح منافع انتہائی مناسب 15فیصد مقرر کی جاتی ہے، اور خالص منافع 10سے 11 فیصد کے درمیان رکھا جاتا ہے تو فی مسافر یومیہ کرایہ کم ازکم 95 روپے مقرر کرنا پڑے گا، جو آگے چل کر 100 روپے سے بھی زائد ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ خود تحریک انصاف کے دعووں کے مطابق لاہور میٹرو میں 20روپے کے ٹکٹ پر 40روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے ، سو اس کی کل لاگت 60روپے فی مسافر ہوئی ! اب کس منہ سے تحریک انصاف کی جانب سے پشاور میٹرو کو دنیا کی سستی ترین سواری قرار دیا جارہا ہے، میری سمجھ سے تو باہر ہے۔
        4) اب آپ اندازہ لگائیں کہ تقریباً 100 روپے فی مسافر لاگت والا منصوبہ عوام کی جیب پر کتنا بوجھ ڈالے گا ، اس شہر میں جہاں فی کس سالانہ آمدنی 1500 ڈالر یا تقریباً 430 روپے یومیہ ہو۔ اس صورتحال میں کیا اسے عوامی منصوبہ قراردیاجاسکتا ہے جو شہریوں کی اوسط یومیہ آمدنی کا قریب قریب ایک چوتھائی ہڑپ لے؟منافع کا مارجن رکھے بغیر بھی فی مسافر کرایہ تقریباً80 روپے بنتا ہے، جبکہ اوپر بیان ہوچکا کہ لاہور میٹرو سبسڈی سمیت فی مسافر 60 روپے لاگت رکھتی ہے! کیا ایسی صورتحال میں حکومت کا اس منصوبے پر منافع کمانے کا سوچنا بھی اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے مترادف نہیں؟
        جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ، میں میٹرو منصوبوں کا مخالف نہیں۔ میری رائے میں اگر ان پر حکومتوں سبسڈی دینی بھی پڑے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے والا معاملہ ہے، کوئی احسان نہیں۔ مقصد یہاں صرف انصافی دوستوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ چیزوں کو اپنے گم گشتہ لیڈر کی بڑھکوں کے بجائے ان کے اصل تناظر میں دیکھنے کی عادت ڈالیں۔ اگر آپ سب نے خان صاحب کی اندھی تقلید میں 4 سال میٹرو پر پھبتیاں نہیں کسی ہوتیں تو آج آپ کو عوامی مفاد کے ایک منصوبے کے جواز کے لئے نہ تو جھوٹ بولنا پڑ رہا ہوتا نہ ہی احمقانہ جواز تراشنے پڑ رہے ہوتے۔

        • kamaal hai itni bari taqreer likh k ap kya sabit karna chah rae????
          zehan kam karta hai aap ka????
          pehli bat to IMRAN KHAN ko kbi b metro se masla nae tha..unhee punjab hakomat ki tarjeehat se masla tha or ab b hai….ap ko ye to nazar ata hai k peshawar me mtbs ban raha hai or pti k supporters or followers us k fazaail byaan kar rae hain…..ku n karen fazaail byaan???
          agar ankho par se patwarpan ka parda utaro or dekho k kpk me pichle 4 salo me kya hva hai to aise baten na karte????
          police,education,health or atmospheric change pe kam karne k bad ye project shro kiya gya hai….or ku na kare fazaail byaan???
          maan liya k un se mehngi ban rae hai magar features b us se zada hain..ye aap ko nazar nae aata???punjab ki metro k record check karo…..bht se cheezen aise hain jin ki price ko count e nae kiya gya…ab vo count na ke gae price b to PAKISTAN ki jaib se gae hain naa k in hukmranno ki jaib se…..tanqeed karna jaiz hai…tanqeed karen…lekin jaiz tanqeed karennn….
          or han in sab shehro ki abaadi rat k vaqt jitni hti hai din ko double nai to aadi to us se zada hti ho ge na….peshawar metro e zada log safar kar sake ge…ye bat ap ne sun k bla bla shuro kar diya???kya vo reason janne ki koshish ki k aisa kis terminology ki bunyaad pe kaha ja raha hai????pehle jano phr bolo……
          zara in dono ka infrastructure check kare ap ko is bat ka b andaza ho jae ga…k pti vale ye bt kis bunyad pe kar rae hainn….
          aise e nae bas sukee pe aa k yao yao shuro ho jay karen…pehle sochen samhhen…phr bole https://uploads.disquscdn.com/images/11886cc08a06b3989cbf9f380aaf7b0af2d0116b8cec7d8ca892cdd94be2c362.jpg

  • BS claim and look at propakistani (or should I say ProPTI) quoting their claim as if its a Hadith… Without critically analysing it. Aamir Ata please have some dignity.

    • Aamir Ata bhai main dignity hai Laikin PTI side ki only
      Puray Pakistan main development ho rahi hai Laikin ProPTI ko discouraged issues dainay ka pata hai aur jo project KPK ka sirf announce hota hai pura to door ki baat wo aisay lagatay hain jaisi Amir bhai ka Bara bhai ker raha hai wo project. It’s already cleared by posts and comments ProPakitani is actually ProPTI.

  • Metro bananay se qoam nahi banti.. ya ban jati hai ..??? Patanahi bhai imran niazi ne confused kar k rakh dia hai…

  • 3rd generation transport model, which is currently being used in China only….comeone PMLN!!! DO SOMETHING FOR METRO NOW IN RWP

  • Rather copying Lahore Metro, Peshawar should have made a beginning by setting up the underground railway. It would have carried many more passengers and run at a sped far faster than the bus service. It would have been a good example for other cities.


  • Get Alerts

    Follow ProPakistani to get latest news and updates.


    ProPakistani Community

    Join the groups below to get latest news and updates.



    >